میرے بھائیوں دوستوں بزرگوں۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کا ہم فضل و کرم ہوا کہ ہمیں انسان بنایا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں مسلمان بنایا اور حضرت محمد(ﷺ) کی امت میں پیدا فرمایا ۔۔۔۔ قارئین قرآن کریم کی ایت ہے:
کُنْتُمْ خَِیْرَاُمَّۃٍ اُخُرِ جَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُومِنُوْنَ بِاللّٰہِ
ترجمہ: ’’تم بہترین اُمت ہو کہ لوگوں کے (نفع رسانی) کے لئے نکالے گئے ہو،تم لوگ نیک کام کا حکم کرتے ہو اور بُرے کاموں سے منع کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔
قارئین اکرام!مسلمانوں کی تیرہ تیرہ سو سالہ زندگی کو جب تاریخ کے اوراق میں دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم عزت و عظمت ‘شان و شوکت‘ دبدبہ و چشمت کے تنہا مالک اور اجارہ دار ہیں لیکن جب ان اوراق سے نظر ہٹا کر موجودہ حالات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے تو ہم انتہائی ذلت و خواری ،افلاس و ناداری میں مُبتلا نظر آتے ہیں ،نہ زور و قوت ہے ‘نہ زرو دولت ہے،نہ شان و شوکت ہے، نہ باہمی اُخُوّت و اُلفت ‘ نہ عادات اچھی ، نہ اعمال اچھے ، نہ عادات اچھے ، ہر برائی ہم میں موجوداور ہر بھلائی سے کوسوں دُور، اغیار ہماری اس زبوحالی پر خوش ہیں اور برملا ہماری کمزوری کو اُچھالا جاتا ہے اور ہمارا مضحکہ اُڑایا جاتا ہے، اسی پر بس نہیں بلکہ خودہمارے جگر گوشے نئی تہذیب کے دلدادہ نوجوان‘اسلام کے مقدس اُصولوں کا مذاق اُڑاتے ہیں ،بات بات پر تنقیدی نظر ڈالتے ہیں اور اس شریعتِ مقدسہ کو ناقابل عمل ،لغو اور بیکار گردانتے ہیں عقل حیراں ہے کہ جس قُوم نے دُنیا کو سیراب کیا وہ آج کیوں تشنہ ہے؟ جس قوم نے دُنیا کو تہذیب و تمدن کا سبق پڑھایا وہ آج کیوں غیر مُہذب اور غیر متمدن ہے۔۔۔؟؟؟ بس میرے محترم مسلمان بھائیوں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم از سرِنو اپنے حالت کا جائزہ لیں اور اپنا محاسبہ کریں وہ کیا کیا اُمور ہے جن کو ہم اپنی اس زندگی سے دور کیا ہوا ہے ! آئیں مل کر سوچیں!!
دوستوں اس بلاگ کے قیام کا مقصد ہمارے علماء اکرام اور بزرگانِ دین و اسلاف کے ان کاوشوں کو انٹرنیٹ کمیونٹی تک پہنچانا ہے جس سے معاشرہ اس نہج پہ آ جائے جس کا خواب اسلام دیکھتا ہے۔۔۔۔ قارئین اس سفر میں ہمارے ہمسفر بنئے۔
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں ۔۔۔۔۔۔مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ
کُنْتُمْ خَِیْرَاُمَّۃٍ اُخُرِ جَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُومِنُوْنَ بِاللّٰہِ
ترجمہ: ’’تم بہترین اُمت ہو کہ لوگوں کے (نفع رسانی) کے لئے نکالے گئے ہو،تم لوگ نیک کام کا حکم کرتے ہو اور بُرے کاموں سے منع کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔
قارئین اکرام!مسلمانوں کی تیرہ تیرہ سو سالہ زندگی کو جب تاریخ کے اوراق میں دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم عزت و عظمت ‘شان و شوکت‘ دبدبہ و چشمت کے تنہا مالک اور اجارہ دار ہیں لیکن جب ان اوراق سے نظر ہٹا کر موجودہ حالات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے تو ہم انتہائی ذلت و خواری ،افلاس و ناداری میں مُبتلا نظر آتے ہیں ،نہ زور و قوت ہے ‘نہ زرو دولت ہے،نہ شان و شوکت ہے، نہ باہمی اُخُوّت و اُلفت ‘ نہ عادات اچھی ، نہ اعمال اچھے ، نہ عادات اچھے ، ہر برائی ہم میں موجوداور ہر بھلائی سے کوسوں دُور، اغیار ہماری اس زبوحالی پر خوش ہیں اور برملا ہماری کمزوری کو اُچھالا جاتا ہے اور ہمارا مضحکہ اُڑایا جاتا ہے، اسی پر بس نہیں بلکہ خودہمارے جگر گوشے نئی تہذیب کے دلدادہ نوجوان‘اسلام کے مقدس اُصولوں کا مذاق اُڑاتے ہیں ،بات بات پر تنقیدی نظر ڈالتے ہیں اور اس شریعتِ مقدسہ کو ناقابل عمل ،لغو اور بیکار گردانتے ہیں عقل حیراں ہے کہ جس قُوم نے دُنیا کو سیراب کیا وہ آج کیوں تشنہ ہے؟ جس قوم نے دُنیا کو تہذیب و تمدن کا سبق پڑھایا وہ آج کیوں غیر مُہذب اور غیر متمدن ہے۔۔۔؟؟؟ بس میرے محترم مسلمان بھائیوں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم از سرِنو اپنے حالت کا جائزہ لیں اور اپنا محاسبہ کریں وہ کیا کیا اُمور ہے جن کو ہم اپنی اس زندگی سے دور کیا ہوا ہے ! آئیں مل کر سوچیں!!
دوستوں اس بلاگ کے قیام کا مقصد ہمارے علماء اکرام اور بزرگانِ دین و اسلاف کے ان کاوشوں کو انٹرنیٹ کمیونٹی تک پہنچانا ہے جس سے معاشرہ اس نہج پہ آ جائے جس کا خواب اسلام دیکھتا ہے۔۔۔۔ قارئین اس سفر میں ہمارے ہمسفر بنئے۔
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں ۔۔۔۔۔۔مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ
بار یہ پوسٹ پڑھی جا چکی ہے