حضرت ابن عباسؓ کی نصیحت
وہبؓ بن مُنَبِہّ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی ظاہری بینائی جانے کے بعد میں ان کو لئے جارہا تھا وہ مسجد میں تشریف لے گئے۔ وہاں پہنچ کر ایک مجمع سے کچھ جھگڑے کی آواز آ رہی تھی۔فرمایامجھے اس مجمع کی طرف لے چلو۔میں اس طرف لے گیا۔وہاں پہنچ کر آپؓ نے سلام کیا ۔ان لوگوں نے بیٹھنے کی درخواست کی تو آپؓ نے انکار فرمادیا اور فرمایا کہ تمھیں معلوم نہیں کہ اللہ کے خاص بندوں کی جماعت وہ لوگ ہیں جن
کو اس کے خوف نے چُپ کرا رکھا ہے حالانکہ نہ و ہ عاجز ہیں نہ گونگے بلکہ فصیح لوگ ہیں ، بولنے والے ہیں ، سمجھ دار ہیں۔مگر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کے ذکر نے ان کی عقلوں کو اڑ ا رکھا ہے۔ ان کے دل اس کی وجہ سے ٹوٹے رہتے ہیں اور زبانیں چپ رہتی ہیں اور جب اس حالت پر ان کو پختگی میسر ہو جاتی ہے تو اس کی وجہ سے نیک کاموں میں جلدی کرتے ہیں تم لوگ ان سے کہاں ہٹ گئے۔ وَہبْؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے دو آدمیوں کو بھی ایک جگہ جمع نہیں دیکھا۔ (فضائل اعمال از مولانا الیاس ؒ کاندھلوی۔۔۔32صفحہ)
فائدہ :
حضرت ابن عباسؓ اللہ کے خوف سے اس قدر روتے تھے کہ چہرہ پر آنسوؤں کے ہر وقت بہنے سے دونا لیاں سی بن گئی تھیں ۔اوپر کے قصہ میں حضرت ابن عباسؓ نے نیک کاموں پر اہتمام کا یہ ایک سہل نسخہ بتلایا کہ اللہ کی عظمت اور اس کی بڑائی کا سوچ کیا جائے کہ اس کے بعد ہر قسم کا نیک عمل سہل ہے اور پھر یقیناًاخلاص سے بھرا ہوا ہوگا۔ رات دن کے چوبیس گھنٹوں میں اگر تھوڑا سا وقت بھی ہم لوگ اس سوچنے کی خاطر نکل لیں تو کیا مشکل ہے۔۔۔؟
بار یہ پوسٹ پڑھی جا چکی ہے